Historical Researching...






یہ قوم عاد میں سے ایک شخص کا سر ہے۔

قوم عاد یمن وعمان کے درمیانی علاقہ میں آباد تھی، مؤرخین کے نزدیک قوم عاد
تین مرکزی بتوں کی پوجا کیا کرتی تھی:
1۔ صداء 2۔ صمود 3۔ ہباء
یاد رہے کہ یہ سب تاریخ الطبری کی عبارت نقل کی گئی ہے۔

سیدنا ہود علیہ السلام نے اپنی قوم عاد کو بتوں کی پوجا چھوڑ کر ایک اللہ کی
عبادت کی طرف دعوت دی کیوں کہ قیامت کے دن یہی وہ راستہ ہے جس پرچل کر نجات
ممکن ہو گی۔

لیکن قوم عاد پر اس دعوت توحید کا الٹا ہی اثر ہوا، انہوں نے سیدنا ہود علیہ
السلام کی تحقیر کی اور انہیں بیوقوف، دیوانہ اور جھوٹا قرار دیا۔ جبکہ سیدنا
ہود علیہ السلام نے انہیں یقین دلانے کی کوششیں کی کہ جو وہ کہہ رہے ہیں ان
میں ایسا کچھ نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ واقعتاً اللہ تعالٰی رب العالمین
کی طرف سے ایک مرسل ہیں اور قوم کی خیر خواہی چاہتے ہیں۔ سیدنا ہود علیہ
السلام نے اپنی قوم کو یہ یقین دلانے کے لیے بھر پور کوشش کی اور بہت لگن اور
محنت سے انہیں اللہ کی طرف رجوع کرنے اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی طرف
دعوت دیتے رہے۔

سیدنا ہود نے کہا: کیا تمہارے تعجب کی بنیاد یہی ہے کہ تمہیں یہ بات عجیب
محسوس ہوئی ہے کہ تمہی میں سے ایک شخص کی زبان سے اللہ تعالٰی نے تمہیں ان
گمراہیوں کے بد انجام سے ڈرایا ہے جن میں تم مگن ہو؟

کیا تم اس بات سے نصیحت نہیں حاصل کرتے کہ اللہ تعالٰی نے قوم نوح کو ان کے
گناہوں کی پاداش میں ہلاک کرنے کے بعد تم لوگوں کو اس زمین کا وارث بنایا
ہے،،،، اور تمہارے لیے یہ بات نصیحت آموز نہیں کہ تم کو اللہ نے بے پناہ قوت
اور طاقت بخشی ہے؟؟؟ یہ ایک ایسی نعمت ہے جو تم سے تقاضا کرتی ہے کہ تم اللہ
تعالٰی رب العالمین پر ایمان لے آؤ اور اس کا شکریہ ادا کرو،،، یہ نہیں کہ تم
اللہ کا انکار کرو ...

اور قرآن نے بیان کیا ہے کہ قوم ہود نے اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں
کیا بلکہ وہ اپنی خواہشات کے سمندر میں غوطہ زن رہے اور انہوں نے زمین میں
تکبر کیا۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں جیسا کہ قرآن کی آیات میں واضح کیا گیا ہے کہ قوم عاد بلند
محل اور عظیم عمارتیں بنانے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے، مگر جب انہوں نے اللہ
کے رسول کی نافرمانی کی تو اللہ تعالٰی نے ان پر اس کی پاداش میں گرم تیز
آندھی عذاب نازل فرما دیا جو غبار اور گرد سے اٹی ہوئی تھی.