Adolf Hitler
Adolf Hitler
Adolf Hitler was an Austrian-born German politician and the leader of the National Socialist German Workers Party. He was chancellor of Germany from 1933 to 1945 and dictator of Nazi Germany from 1934 to 1945. 
BornApril 20, 1889, Braunau am Inn
DiedApril 30, 1945, Berlin
Full nameAdolf Hitler
Height1.73 m
SpouseEva Braun (m. 1945–1945)
BooksMein Kampf, The Speeches of Adolf Hitler, April 1922-August 1939






        ہٹلر

ہٹلرنے اپنی کتاب " میری جدو جہد " میں لکھا ہے
" میں دنیا کے سارے یہودیوں کو ختم کر سکتا تھا لیکن
میں نے کچھ کو چھوڑ دیا ہے تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ
میں نے انہیں مارا کیوں تھا ۔"

ہٹلر کی نا زی سلطنت 30جنو ری 1933کو عالم وجو د میں آئی بقول ہٹلر کے ایک
ہزار سال تک قائم رہنا ہے مگر وہ صرف بارہ بر س اور چار مہینے تک قائم رہ سکی
تاہم اتنے مختصر وقت میں ہٹلر نے جر من قوم کو اس عروج تک پہنچایا جس کا وہ
ایک ہزار سال تک خواب نہیں دیکھ سکتی تھی ایک و قت ایسا بھی آیا جب جر من قوم
بحر منجمند شمالی سے لے کر وولگا تک اور نا رتھ کیپ سے بحیرہ روم تک سارے یو
رپ کی مالک بن گئی
پھر یہی قو م جس کو ہٹلر نے سپر قوم ہو نے کا شرف بخشا تھا وسائل کی کمی۔جدید
اسلحہ کی عدم دستیابی جنگی علاقہ کی منا سبت سے فو ج کی غیر تسلی بخش تر سیل
اور ما سکو پر یلغار کی غلط منصوبہ بندی علاوہ ازیں ہٹلر کے چند وفا د ار سا
تھی ہملر نے جس کی وفا داری شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ مغر بی فوجوں کو اتحاد
یوں کے سپرد کر نے کی سازش تیار کر کے ہٹلر کی تباہی کے انجام کا آخری سگنل دے
دیا جس کے نتیجے مین اتحادیوں کی سیا سی پو ز یشن اور مضبوط ہو گئی اس غم نا ک
خبر نے ہٹلر کے جسم میں کپکپی طاری کر دی اور اس نے ہملر کی گر فتاری اور روسی
فو جوں پر حملے کا حکم دیا مگر یہ حکم نا مہ و صیت نا مے کی حثییت سے آگے نہ
بڑھ سکا چو نکہ وقت گزر چکا تھا حالات اتحادیوں کے حق میں ہو چکے تھے۔
بر لن اتحا دیوں کی بمباری سے ز میں بو س ہو رہا تھا پا ر لیمنٹ کی بلڈنگ
مسمار ہو چکی تھی ۔روسی فو جیں دند نا تی ہو ئی بر لن شہر کے آخر ی کنا رے پر
پہنچ رہی تھیں۔ہٹلر کے جا نشین گر ینڈ ا یڈ مر ل ڈو ئنٹز کے نمائندے جنرل کیٹل
نے 7مئی 1945کی صبح 2بج کر 41منٹ پر ریمز کے مقا م پر آئرن ہا ور کے ہیڈ کو ار
ٹر پر غیر مشرو ط ا طا عت قبو ل کر لی یوں پو رے یو ر پ میں تو پو ں نے آگ ا
گلنا بند کر دیا۔ سا ڑھے پا نچ سال کی خو فنا ک جنگ ایک صد مقا ما ت پر لڑی
گئی۔اس جنگ میں ایک ہزار یو رپ کے بیشتر قد یم کھنڈرات میں تبد یل ہو ئے محتا
ط اندازے کے مطا بق جنگ عظیم دوم میں قر یبا ایک کر و ڑآدمی ما رے گئے اور
لڑائی میں ا تنے ہی نا کا رہ ہو ئے ستر لا کھ سپا ہی بشمول ہو ا با زار اور
ملا ح اپنے ہی ملک میں جنگی قیدی بنے ایک کروڑ بیس لا کھ انسان بے گھر ہو ئے
پا نچ لا کھ شہری اور تیس لا کھ سپا ہی جنگ میں کا م آئے لا کھو ں کرو ڑوں جر
من غیر ملکی حکو متوں کے غلام بن گئے مشر قی پر یشیا۔سائی ایشیا اور دیگر اہم
علا قے ہمیشہ کے لئے ہا تھ سے نکل گئے ۔بر لن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔ہٹلر
کی جذ با تی جنگ کے با عث جہاں اس کی اپنی قوم کو شکست فا ش ہوئی وہا ں اس نے
یو رپ کی استعماری طاقتوں کو جنجوڑ کر رکھ دیا۔برطانیہ عظمیٰ کی وسیع سلطنت کو
پاش پاش کر ڈالا۔پاکستان ،ہنداستان،انڈونیشیا مشرق بعیداور افریقہ کے بیسوں
ممالک کے قریباً ایک ارب انسانوں کو آزادی نصیب ہوئی ۔دوسری جنگ عظیم نے
اتحادیوں کو ایٹم بم دیا جس نے جاپان کے دو شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیماکی
تباہی اور بربادی کی او ر لاکھوں انسانوں کی زندگیاں مفلوج کر دی گئیں۔
ہٹلر کو سب سے زیادہ نفرت یہودی قوم سے تھی۔اس نے اپنی کتاب ’’مین کیف‘‘ (میری
جدوجہد) میں یہودیوں پر نفرین ڈالنے میں بیشتر صفحات سیاہ کیے تھے۔ان کی سود
خوری،معاشی اداروں پر ان کی گرفت ، ان کی بد اخلاقی،بد کرداری اور غداری کے
بارے میں لکھنے کے بعد کہا ہے کہ وہ ایک ایک کر کے تمام حکومتوں کو ملیا میٹ
کرتے جا رہے ہیں تاکہ ان کے کھنڈرات پر اپنی یہودی سلطنت کی بنیاد رکھ سکیں
۔اگر جرمن قوم اور جرمن ملک پر ان غداروں کا ہاتھ بڑھ گیا تو ساری دنیا کے خون
کو یہ آٹھ ڈنگ والا جانور چوس جائے گا۔یہ قوم بنی اسرائیل جو اپنے آپ کو خدا
کی منتخب قوم کہتی ہے ۔کوئی گندگی ،کمینگی یا غلاظت ایسی نہیں ہے جس کے پیچھے
اس کا ہاتھ نہ ہو ۔ہٹلر کو جب پہلی بار معلوم ہوا کہ یہ لوگ بدمعاشی،قحبہ گری
اورگھناؤ نی جنسی برائیوں میں ملوث ہیں تو بقول ہٹلر کے اس پر لرزہ طاری ہو
گیا۔اور یہ نسل کی برتری پر اندھا دھند ایمان رکھنے کا نتیجہ تھا کہ ہٹلر اپنی
جرمن کی نسل کو بچانے اور بڑھانے کے لیے دوسری قوموں کو فتح کرنا،انہیں ملک
بدر کرنا اور انہیں تباہ کرنا عبادت کے درجہ سے کم نہ ہو گا۔چونکہ جرمن قوم کی
گنجان آبادی کے لیے زمین بہت کم ہے اس لیے زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ
سے زیادہ جگہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد تیز کر دی جائے اور اس کے بارے میں ہٹلر
کے خیالات کچھ یوں تھے کہ روس کے حاکم عام خونی مجرم ہیں ۔یہ انسانیت کا تلچھٹ
ہیں ۔انہوں نے ایک خوفناک قتل عام کر کے ملک کے لاکھوں اور ہزاروں دانشوروں کو
دفن کر دیا ہے ۔اگر روس میں دفن قیمتی دھاتیں جرمن کے ہاتھ لگ جائیں تو جرمن
کہیں آگے نکل سکتا ہے۔ہٹلر لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں کوئی ایسی قوم نہیں جس کے
پاس ایک مربع گز زمین بھی ایسی ہو جس پر وہ حق کے طور پر قابض ہو۔ریاستوں کی
حدود کو انسان ہی بناتے ہیں ،انسان ہی تبدیل کرتے ہیں ۔اگر کسی قوم کے پاس بے
حدو حساب زمین ہو تو کوئی قانون نہیں بن جاتا کہ اب ان سرحدوں کو تبدیل نہیں
کیا جا سکتا ۔آگے لکھتا ہے کہ ہوشیاری ،چالاکی اور پروپیگنڈہ کے بل پر لوگوں
سے یہ منوایا جا سکتا ہے کہ جنت دوزخ ہے اور دوزخ جنت ہے ۔عوام کی ابدی ،سادہ
لوحیٰ کے پیش نظر ایک بڑا سفید جھوٹ چھوٹے جھوٹ کی نسبت زیادہ اہمیت کا حامل
ہوتا ہے چونکہ لوگ چھوٹے جھوٹ کو زندگی میں آئے دن بولتے رہتے ہیں لیکن بڑا
جھوٹ بولتے ہوئے ہچکچاہٹ اور ندامت محسوس ہوتی ہے چناچہ وہ بڑا جھوٹ سن کر اس
پر شک نہیں کر سکتے ۔ رابرٹ ڈاؤن نے اپنی کتاب (وہ کتابیں جنہوں نے دنیا دل کر
رکھ دی) میں ہٹلر کی کتاب ’’مین کیف ‘‘ کے بارے میں یوں تبصرہ کیا ہے کہ دنیا
کی بدقسمتی ہے کہ ہٹلر کی موت کے ساتھ اس کے خیالات کیوں نہیں مرے ۔کیمونسٹ
اور سوشلسٹ حکومتوں نے ہٹلر کے خیالات اور اس کے ہتھکنڈوں سے پورا پورا فائدہ
اٹھایا ہے جس طرح چار صدیوں سے دنیا کے مختلف آمر مطلق ،میکیاولی کی کتاب سے
استفادہ کر کے انسانیت پر جبرو استبدادا کرتے رہے ہیں ۔اسی طرح وہ مجرمانہ
مقاصد کے لیے ہٹلر کی اس کتاب سے بھی فیض یاب ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔
حالات و واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ انسان ہٹلر کے دور میں آزاد تھا مگر
موجودہ دور میں غلامی کی زنجیروں میں بڑی بے رحمی سے جکڑا ہوا ہے اور ستم یہ
کہ کوئی بھی ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے ۔یہودیوں کی چیرہ دستیوں سے
فلسطینی خود کشی پر مجبور ہو چکے ہیں ۔مشرق و مغرب پر ان کی معاشی و اقتصادی
اجارہ داری بدستور قائم و دائم ہے ۔ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی قوم
کمپلیکس کا شکار ہے اور ہٹلر سے شکست کے بدلے میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کر
کے اپنا کھویا ہو ا وقار بحال کرنے میں مصروف ہے ۔
امریکی پشت پناہی نے اسرائیل کو بے لگام گھوڑا بنا دیا ہے اور وہ جب چاہتا ہے
فلسطینیوں اور لبنانیوں پر چڑھ دوڑتا ہے ۔چند روز پیشتر محصورین غزہ کے لیے
امدادی سامان لے کر جانے والے بحری جہاز ،فریڈم فوٹیلا کے قافلے پر بہمیانہ
فائرنگ ،امدادی کارکنوں کی شہادت ازاں بعد حراست سے ان کی رہائی سے معلوم ہوتا
ہے کہ وہ طاقت کے نشے میں چور ہے اور عربوں کی نفسیاتی کمزوری اور نفاق سے
پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے ۔اس بزدلانہ واقعہ کی پوری دنیا نے کھل کر مذمت
کی ہے لیکن اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور اسرائیلی حکمران کھلے عام اپنا
عزم دہرا رہے ہیں کہ آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے۔
اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق حق خود اختیاری تمام اقوام کا بنیادی حق ہے مگر
بھارت کشمیریو ں کو یہ حق دینے پر ہر گز تیار نہیں ۔اسرائیل فلسطینیوں کے
علاقے واگزار کرنے سے پس و پیش کر رہا ہے تو پھر اقوام متحدہ کے منشور کا کیا
فائدہ اور امن کانفرنسیں منعقد کرنے سے کیا حاصل اور یہ سب کچھ خود غرضی اور
منافقت کا لبادہ اوڑھنے کی بات ہے ۔